ارشد ندیم کی فتح اور ویرانوں کے مکین

 اثار قدیمہ والے کسی ٹوٹی پھوٹی پرانی عمارت کو اہم محسوس کروانے اور لوگوں کی توجہ اس کی طرف مبذول کروانے کے لیے ایک چھوٹا سا کام کرتے ہیں وہ اس ویران اور ٹوٹی پھوٹی عمارت کو وسط میں رکھتے،  اس کے ارد گرد کی تمام عمارتیں گرا دیتے ہیں اس کے ارد گرد کے تمام فٹ پاتھ شاہراہ ہیں مٹا دیتے ہیں۔ 

 یعنی ایک چھوٹے سے میدان میں ایک عمارت جس پر روشنیاں اپنا جادو جگاتی ہیں، اور یک سحر پیدا کر دیتی ہیں۔ اس عمارت پر جگ مگ کرتی یہ لائٹیں اس کے ارد گرد کی صدیوں پرانی تاریخ، بھوک، غربت، تنگی ، تکلیف اور گرائے گئے مکانوں کے مکینوں کی در بدر ہونے کی داستانیں چھپا دیتی ہے۔ 

ارشد ندیم کی فتح اور ویرانوں کے مکین




 یہی حال ہمارے معاشرے اور ہمارے نظام کا بھی ہے، ارشد نے بلا شبہ ذاتی محنت سر توڑ کوشش اور قابلیت سے تاریخ رقم کی ہے۔  لیکن کیا اس کی اس فتح میں ریاست حصہ دار ہے ۔ 

قطعا نہیں۔۔۔ 

  ارشد کو بالکل آثار قدیمہ کی اسی عمارت کی طرح سجاوٹ اور روشنی میں جکڑ کر اس کے ارد گرد کی تمام ناکامیاں اور نااہلیاں چھپا دی گئی ہیں۔ 

 یہ سوال اج کوئی نہیں پوچھ رہا۔۔ 

  • کیوں پاکستان کو 77 سال لگے؟
  •  پاکستانی وفد میں کھلاڑیوں سے زیادہ منتظمین کیوں تھے؟
  • اولمپک کھیلوں میں پاکستان کی کارکردگی بس سے بدتر کیوں ہوتی گئی اور اج کا دن ایا؟ 
  • متعلقہ اہلکار کیا سارا سال سوائے بے کارتی کے کوئی۔ کام مرتے ہیں؟
  • سکولوں، کالجوں کی سطح پر کھیل اور مقابلے ختم کیوں کیے گئے ہیں؟
  • کیا اج سکول کے بچوں کو کھیلنے کو میدان دستیاب ہیں؟
  • کیا اج ہمارے بچوں کے پاس کوئی صحت مند ایکٹیویٹی باقی ہے۔ ؟


ہم ایک ذہنی معذور اور جسمانی لاچا رگی کا شاہکار بن چکے ہیں۔ بغداد کے چو راہوں کی طرح ہمارے پاس بھی صرف یہی کام اہمیت کا حامل ہے کہ سوئی کے سوراخ میں سے اونٹ گزر سکتا ہے کہ نہیں۔ ۔۔ 

ارشد کا کریڈٹ اسکا اپنا ہے کوئی بھی اس میں حصہ دار نہیں، ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ سبق نہیں سیکھنا ۔۔ 

اور یہ تاریخ کا فیصلہ ہے کہ 

"جو سبق نہیں سیکھتے، وہ سبق بن جاتے ہیں۔"

کامیابی کی کلید کیا ہے؟ 

تاریخ کا سبق