قیامت سے پہلے قیامت



لاہور ہائی کورٹ کے باہر خودکشی حقیقت تلخ ہے


کوئی اہل علم ہو،  مجھے جواب دے ۔۔۔ 
قیامت سے پہلے قیامت کو جی لینے اور جنم کا عذاب خود پر گزار لینے والے کے لیے کیا اصول ہو گا؟
کیا پھر سے قیامت ہو گی؟
کیا محشر میں دوبارہ عدل کے ترازو کے سامنے جائے گا؟ 
کیا جنت میں داخل ہو کر ہمیشہ رہنے کی پالیسی صرف حضرت ادریس ـ
(رض) تک ہی محدود ہے؟؟؟ 
سالوں سے پاگل یہ سمجھ بیٹھا تھا کہ آخر فتح حق کی ہو تی ہے۔ سفر لمبا ضرور ہوتا ہے لیکن حق اور سچ ایک دن ضرور کامیاب ہوتے ہیں۔ 
بڑے ترازو کے سامنے حاضری دینے کے لیے لوگوں کا رش محشر ہی سمجھ بیٹھا تھا۔ اسکو نظر نہ آرہا تھا مگر عدل کے ترازو کے پیچھے خدا کی کرسی وہ کرسی کہ جس پر بیٹھا شخص ملک الموت کو بھی انتظار کروانے کی طاقت رکھتا ہے۔ اس کے فیصلوں سے زندگی اور موت جڑی ہوتی ہے ۔
اسے مائی لارڈ۔۔۔ 
مائی لارڈ کہنے کی صداؤں نے شاید اس کے دل میں کوئی امید بھر دی تھی کہ خدا زمین پر اتر آیا ہے اسی لیے تو 
ہر گردن کی جھکی جائے 
 ہر نظر کہ تاب نہ لائے 
آواز کہ گویا ہر سو سناٹا 
اور وقت تو جیسے تھم ساجائے۔ 
لیکن اس کے خدا نے بھی اسکو دھتکار دیا۔ 
اس کی بات سننے سے انکار کر دیا۔ 
اسکا سفر اسکی جدوجہد سب بیکار کہ اسکا خدا اس کی فریاد تک کو سننے کے قابل نہ سمجھتا۔ 
وہ ہار گیا ۔۔۔ وہ خود سے ہار گیا۔ 
صرف چپ رہنے کے بدل اسکو سب ملتا، گھر گاڑی نوکری تنخواہ ۔۔ 
اب ہمت کہاں سے لائے اس بیوی کا سامنا کرنے کی جس کو حق کی ایک دن فتح کی وعید سناتا فاقوں تک لے آیا تھا۔ 
وہ بچے جو ملٹی نیشنل سکول سے نکالے گے، اب سرکاری سکولوں میں لیجانے کے لیے کتابوں کو ترستے۔ 
انکی بھجتی آنکھیں اور ڈوبتے خواب اس کا کلیجہ چبا رہے تھے۔ 
سنتے آئے ہیں محشر میں کوئی احساس باقی نہیں ہوگا۔
ماں باپ اپنے بچوں کو بھول جائیں گے۔ وہ بھی بھول گیا۔ 
اس نے سمجھ لیا کہ فیصلہ ہو گیا۔ 
مجھے دھتکار دیا گیا ۔ 
جہنم کی آگ ہی شایدپناہ دے مجھے۔ 
جل کر مرنا تمام موت کی وجوہات میں سے خوفناک اور دردناک احساس ہے۔ شاید اسی لیے جہنم آگ سے ہی روشن ہو گی۔ 
اس نے بوتل سے ایک بدبودار سیال خود پر امرت سمجھ کر انڈیلا ہوگا۔ قریب کھڑے لوگ افراتفری میں بھاگے ہوں گے۔ 
پہلی چنگاری کے بعد چند لمحات کا سکوت کہ جب تک درد اس کے ضبط کی حدوں کو روندھ نہ ڈالے۔ 
جیسے ہی جلتے کپڑوں کی حدت سے جلد جلنے لگی اس کے درد سے انصاف کدہ میں سوئے بھگوان کی نیند میں خلل پڑا۔ 
اسکی جلد اس جلن کی وجہ سے سوزش کا شکار ہونے لگی۔ آگ کی شدت نے اس کے جسم میں ایک عجیب طرح کی گرمی پیدا کر دی، خون گردش کرتا ہوا جب بیرونی جلتی ہوئی جلد کے قریب جاتا تو گرم ہو کر لوٹتا اس کی خون کی نالیاں تباہ ہو کر پھیلنے لگی اور گرم خون اور زیادہ رفتار سے آگ کی جلن کو اس کے جسم کے اندر تک لیجانے لگا۔ 
جلد کی اوپر والی تہیں برباد ہو تے ہی جلد کے نیچے کی چربی پگھنے لگی لیکن درد کے خلیے تباہ ہو جانے پر ایک تھوڑا درد کا احساس کم ہوا محسوس ہوا۔ 
 ان دردناک مناظر کے بیچ میں، اُس نے اپنے اندر نرمی کا احساس پایا، جیسے وہ اس تکلیف سے خود کو دور کرنے کی کوشش کر رہا ہو۔ شدید درد کی شدت نے اس کے حوصلے کو توڑ دیا، اور وہ مزید جدوجہد کرنے کے قابل نہیں رہا ہو گا، جیسے اس کا جسم اور دماغ ایک دوسرے کے خلاف ہو گئے ہوں۔
تب ہی اس نے مدد طلب نظروں سے تماشا دیکھتے کالے کوٹ پہنے لوگوں میں منکر نکیر کی تلاش کی ہو گی۔۔۔ 
وہاں کوئی نہیں تھا ۔۔ کوئی نہیں تھا۔ 
فیصلہ ہو چکا تھا۔
اسکا محشر گزر چکا تھا
اسکی جہنم اس پر گزر رہی تھی۔ 
عدل کے ترازو میں اس کے نام کا کوئی وزن نہ تھا اسکی سچ کے لیے جدوجہد قانون کی موٹی کتابوں کے حوالوں میں دب گئی تھی۔ 
با اصول ہونے کی اصولی سزا اس نے خود پر گزاری تھی۔ 
فیصلہ ہو گیا۔ 
فیصلہ ہو گیا کہ یہ اک سیکورٹی لیپس تھا۔ سیکورٹی انچارج کی غفلت آئندہ کوئی انصاف کدہ میں پٹرول لیکر آنے کی جرات نہ کرے۔ ۔۔۔ 
لیکن میرا سوال صرف اتنا ہے کہ کیا حضرت ادریس رض کہ جنت میں داخل ہونے کے بعد نکالے نہ گئے کہ جنت میں رہنے والے ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ 
کیا خود پر قیامت گزار لینے والے کی قیامت ہو گی۔
کیا ہم کہ کوفیوں کے وارث حسین (رض) کی پیاس سے گزارے جائیں گے۔ 
کیا ہم کہ آج حضرت انساں کے مقام کو بھی بھلا بیٹھے۔۔۔۔۔۔
کیا ہمارے اس زمانہ کے بعد جہنم کوئی اور بھی ہے کیا؟
کیا قیامت گزار لینے  والے کی قیامت ہوگی؟