اپاہج انصان

اپاہج انصاف

 ہرمحفل میں ماضی کے ایک طاقتور شخص برگیڈئر امتیاز عرف برگیڈئر بلا کے بڑھاپے میں اسکی اولاد کے ہاتھوں ہونے والے سلوک کو خدا کی لاٹھی قرار دیا جا رہا ہے۔ ہر شخص کف افسوس ملتے ہوئے انکے مظالم اور جرائم کی اصل تعداد بھی بتانے سے قاصر ہے۔ کراچی آپریشن شاید مغربی پاکستان کا اب تک کا سب سے خوفناک آپریشن ہے۔ ہزاروں لوگ مار دئیے گئے۔ خاندان برباد ہوئے، اور جو بچے وہ در بدر ہوئے.

ہمارے اردگرد دیکھیں، لاتعداد بوڑھے اپنی اولادوں کے ہاتھوں ذلیل ہوتے نظر آتے ہیں۔ لا تعداد واقعات ہیں بوڑھے والدین پر باقاعدہ تشدد کیا گیا ہے۔ اولڈ ہرمز زندہ مثال ہیں۔ ہماری عدالتیں ایسے ایسے کیسز سے بھری ہیں، جن پر جج خود کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں۔

یہاں میں سوال کرنا چاہتا یوں۔

کیا دنیا میں رہتے پاکستان نامی جمہوریہ میں کوئی ایک بھی ایسا ج, عدالت یا ادارہ نہیں جو برگیڈئر کو ان مظالم یا جرائم کی سزا دے سکے۔

ایک مظلوم کے پاس زمین سے لیکر آسمان تک کوئی بھی ایسی جگہ نہیں جہاں جا کر وہ اپنی فریاد رکھ سکے اور اسے انصاف کی امید ہوں۔ اج معاشرہ اس قدر بے بس اور مجبور پے کہ ہر شخص کو آخرت میں عذاب سے ڈرایا جاتا ہے اور خدا کی ناراضگی یقینی ہونے کی وعید سنا کر دعا اور بددعا میں یقین رکھنا سکھایا جاتا ہے۔ 

جنرل مشرف عمر کے آخری حصہ میں بیمار رہے، مداری گر انکی اس بیماری کو اللہ کا عذاب اور کھبی قدرت کی لاٹھی قرار دے کر کانوں کو ہاتھ لگاتے رہے۔ کیا انکی بیماری ان ہزاروں لوگوں کی اذیت کے برابر تھی جنکو گوانتاناموبے بھرنے کے لیے بھیڑ بکریوں کی طرح بیچ دیا گیا۔ کیا ریاست کا کوئی ادارہ اس بات کا جواب دے سکتا ہے، کہ گوانتاناموبے میں سب سے زیادہ قیدی کراچی سے کیوں تھے؟

وقتا فوقتا کسی بڑے آدمی کی ویران قبر کی تصویر کے ساتھ افسوس کا اظہار کیا جاتا ہے۔

آج فاتحہ پڑھنے والا کوئی نہیں۔۔ اس تصویر میں قبر کے ارد گرد لا تعداد قبریں بھی موجود ہوتی ہیں جنکا نام لینے والا بھی کوئی نہیں ۔

تو گویا ظالم وقت کی قبر بھی باقی قبروں میں ممتاز ہے۔

اگر اسی نظر سے دیکھیں تو جنرل ضیاالحق طیارہ کے حادثہ میں اس عالم سے کوچ کر گئے۔ لیکن ان کے شروع کیے منصوبے اور زہریلی کتابوں کا ثمر ہم اج بھی کاٹ رہے ہیں۔ ہزاروں لوگ گمنام راہوں میں نامعلوم منزلوں کی جانب جاتے مارے گئے، خود پاکستان کے بننے سے اب تک کتنے شہید ہوئے کسی کو علم نہیں۔ تو کیا انکو موجود نہ ہونے پر سزا نہ ملے گی۔

ہم ذہنی اپاہجگی کاشکار ہیں۔ ہم مفلوج لوگ ہیں۔ اللہ کی صفت ایک عادل کی ہے۔ ہزاروں خاندانوں کی زندگی تباہ کرنے کی سزا اس دنیا میں دینا ریاست کی ذمہ داری تھی۔

یہی ہماری سوچ کی زنجیریں ہیں جو ہماری آزادی اور غلامی کا فیصلہ کرتی ہیں۔

بے بسی میں مرنا اور اگلے عالم میں انصاف کے منتظر رہنا یہ سوچ صرف ظالم پرور اور جارحانہ سوچ والے معاشروں کو تشکیل دے سکتی ہے۔ اللہ اپنا عدل و انصاف یوم محشر کرے گا، اس دنیا کو جنت یا جہنم ہم نے خود بنانا ہوتا ہے۔ساری زندگی جبر اور ظلم کرنے والے آدمی پر قدرت کی گرفت کا انتظار کرتے، ہم چاہتے ہیں کہ عمر فاروق جیسا نظام عدل قائم ہو۔۔ 

لیکن نہ تو ہم خود عمر فاروق کی رعایا جیسے بننا چاہتے ہیں اور نہ ہی کچھ کوشش ہی کرتے ہیں۔ ایک اپاہج نظام انصاف بنا رکھا ہے، جو صرف کمزور کو سزا دے سکتا ہے۔

ہم نے نجانے کب سے ظلم ہوتا دیکھ کر اپنا دروازہ بند کر لینے کو کامیابی اور مصلحت جان لیا ہے۔

یہ معاشرہ ہم نے بنایا ہے خود اپنے اور اپنی نسلوں کے لیے ہم اس کے ذمہ دار ہیں۔

ظالم زماں نے اسی لیے حضرت امام حسین پر کوئی باب کسی سرکاری کتاب میں شامل نہیں کیا۔ اج بھی حضرت امام حسین کو مظلوم کربلا ، ظلم سہنے کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے۔ انکو اس طرح کیوں نہیں پڑھتے کہ یزیدیت کے خلاف مزاحمت کی اور اسکو بدلنے کے لیے گھر سے نکلے۔

امام حسین تخت یزید سے دور نہیں جارہے تھے بلکہ اسکی طرف جارہے تھے۔ ہم بحثیت قوم انشاللہ کہہ کر ہر ذمہ داری سے بری ہو جاتے ہیں۔ لیکن یہ عالم اسباب ہے۔ یہاں سبب پیدا کرنے پڑتے ہیں۔

یہاں انشاللہ ہوتا نہیں ہے۔

اللہ کی انشا یہی ہے کہ یہاں قائم کرنا پڑتا ہے۔

خواہ عدل ہو، انصاف ہو یا نماز

جہادی دلہن لوٹ کر جائے کہا