جنگ کا جنون
زن زر زمین کے تمام جھگڑے ضابطے میں تو اگئے، لیکن چوتھا عنصر اسی کروفر اور طاقت کے ساتھ نسل انسانی کو ہر روز تباہی کے ایک نئے رخ سے روشناس کرواتا رہا۔
عرصہ قبل انسانی کو اشرف المخلوقات مانتے ہوئے انکے کچھ حقوق طے کر دئیے گئے، جنکو بنیادی انسانی حقوق قرار دیا گیا۔ یہ حقوق انسانی ریاستوں اورحکومتوں کی ذمہ داریاں قرار پائی، اور ساتھ ہی ان ریاستوں اور حکومتوں کو چلانے کے لیے آئین ،دستور اور قانون بنائے گئے۔ ملکوں کی حدود طے کر د گئی۔ تاکہ اس دنیا کو حضرت انسان کے رہنے کے قابل بنایا جا سکے۔
آئین کسی بھی قوم کی روح کی اہمیت رکھتا ہے جو کسی بھی صورت حال یا بھنور میں پھنسی قوم کو کنارے تک لانے کی طاقت رکھتا ہے۔ آئین کے ہوتے کوئی طالع آزما ، کوئی فوجی ڈکٹیٹر یا سیاسی غاصب اقتدار پر قابض نہیں ہو سکتا، اس لیے جب بھی جمہور کے حق پر شب خون مارا جاتا ہے اسی آئین کو معطل اور پھر منسوخی کی طرف لے جایا جاتا ہے۔
اب عام حالات میں تو ایسا ممکن نہیں ہوتا، اس عمل کے لئے ہنگامی حالات کا موجود ہونا ضروری ہے۔ ہنگامی حالات میں جب انسانی جانوں پر بن آئے اور ان کے بنیادی حقوق کو خطرہ در پیش ہو جائے، تو ہنگامی قوانین کا نفاذ کیا جاتا ہے اور آئین کو معطل کر دیا جاتا ہے۔ ہنگامی قوانین یا ایمرجنسی میں آئین کے ساتھ اس کے دئیے تمام بنیادی انسانی حقوق معطل ہو جاتے ہین۔ شہری آزادیاں صلب کر لی جاتی ہیں۔ اور یہ ایک ڈکٹیٹر یا غاصب کا من پسند وقت ہوتا ہے۔ کیونکہ اس دور میں سیاہ و سفید کا مالک وہی ہوتا ہے، اسکا کہا قانون اور حرف آخر ہوتا ہے۔