گندی نسل: ایک عیاش نسل کی کہانی



ہر شہر میں ایک خاندان ایسا بھی ہوتا ہے جس کا ماضی نہایت شاندار تاریخ  سے جڑا ہوتا ہے۔ انکا شمار ماضی کے اہل ثروت لوگوں میں ہوتا ہے۔  یہ لوگ چلتے چلتے اچانک رکتے ہیں اور کسی شاندار عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ساتھیوں اور دوستوں کو بتاتے ہیں کہ یہ کبھی ہمارے آباؤ اجداد کی ملکیت ہوا کرتی تھی۔ 

یہ لوگ سخت حالات میں سفید پوشی کا بھرم رکھنے کی جستجو کرتے نظر آتے ہیں۔ ان لوگوں سے کبھی تفصیل میں جاننے کی کوشش کریں تو سب کی کہانی کم و بیش ایک سی ہوتی ہے۔ یہ خاندان کئی پشتوں پہلے کسی شخص کی محنت، ذہانت اور ان تھک کوشش سے شروع ہوتی ہے۔ کئی نسلی اس وراثت کو سنبھالتی ہوئی ان تک لاتی ہیں لیکن ایک نسل ایسی آتی ہے، جو عیاش جوا باز نااہل اور ناعاقبت اندیش ہوتی ہے۔  جو آباو اجداد کی وراثت اور روایات کو طوائفوں کے پیروں میں یا جوئے کے اڈوں پر تاش کے پتوں کی طرح ہار جاتی ہے۔ 

ان تک جائیدادیں آتے آتے کہانی بدل جاتی ہے اور وہ خاندان کہ جس پر ہن برستا تھا ایک پھٹکار اور زمانے کے لئے ایک عبرت کی مثال بن جاتی ہے۔ 

 خبریں تو شاید پرانی ہیں لیکن ایک ساتھ میری نظر سے گزری تو مجھے بھی کچھ ایسا ہی محسوس ہوا۔ پہلی خبر میں رینٹل پاور پلانٹ کے معاہدہ کی پرانی شرائط پر تجدید کی شنید تھی۔ رینٹل پاور پلانٹ پاکستان کو گھٹنوں کے بل گرا دینے والا سب سے بڑا شکنجہ ہے۔ اسکو اتار پھینکنے کی بجائے مزید دس سال کے لئے گردن کا طوق بنا لیا گیا۔ 

پاکستان میں کوئی صنعتی انقلاب نہیں چل رہا، سابقہ ادوار میں ملنے والے کئی سالوں کے آرڈر منسوخ ہو چکے ہیں یا مل مالکان خود منسوخ کروا رہے ہیں کہ ان حالات میں ممکن نہیں۔ بجلی ضرورت سے زائد بنانے کی قابلیت موجود ہے، دوبارہ سے دس سال کا معاہدہ مطلب کوئی کرن بہتر دن کی نہ آنے کی یقین دہانی۔ 

غازی بروتھا ہائیڈرو پاور پلانٹ کو غیر ملکی کمپنی کو فروخت کے لیے تیار کیا جا رہا ہے فی یونٹ پیداواری قیمت ایک روپیہ 50 پیسے کو 10 روپے تک بڑھایا جا رہا ہے تاکہ خریدنے والا کسی بھی صورت نقصان میں نہ رہے۔ 

 قربان جاؤ ان امپورٹ کی  ٹائی کوٹ پہننے والے بابوں پہ جنہوں نے کھبی اس عوام کو جو انکو شہنشاہوں کی طرح پالتی ہے، اور انکے ناز نخرے اٹھاتی ہے، کھبی ایک آنے کا فائدہ نہ کر کے دیا۔ لیکن غیر ملکی خریداروں کا منافع یقینی بنانا ضروری سمجھا۔ 

ہم میں کھبی قومی ملکیت کا احساس ہی پیدا نہیں ہوا، وگرنہ ان قومی اثاثوں کی سے ضرور واقف  ہوتے۔  

کوئی کس طرح ایک ایک روپیہ اکٹھا کر کے بنی ہوئی قومی ملکیت کو اونے پونے فروخت کر دے، اور کر رہا ہے تو کیوں؟

قومی دولت کا تصور ہی عام اہمیت کے موضوعات سے نہیں شاید یہ بھی وجہ ہو کہ قوم کھبی تھے ہی نہیں ہم۔ قوم ہیں ہی نہیں۔ 

ہماری آنے نسل ان قومی املاک کو دیکھتے ہوئے اپنے ساتھ والوں کو بتایا کرے گی۔ یہ کبھی ہماری قومی ملکیت تھی۔  لیکن ہمارے باپ اسے نہ سنبھال سکے ۔ 

ہم ہی وہ نااہل گندی نسل ہیں، جو باپ دادا کے ورثہ اور امانت کی حفاظت کیا کرتے، اس میں اپنی طرف سے اضافہ کیا کرتے عیاشیوں میں اڑاتے رہے۔ ہم نے شام کو مارکیٹ بند نہ کی اور ہر روز اک عمارت بیچتے رہے۔ یہی ہماری نسل کا کارنامہ ہے۔ 


گندی نسل